تحریر – مدیحہ رشید
جب کوئی مرد خاموش رہتا ہے، لوگ کہتے ہیں وہ بے حس ہے۔
جب وہ بولنے کی کوشش کرتا ہے، کہا جاتا ہے وہ غصہ کرتا ہے۔
جب وہ تھک جاتا ہے، تب بھی اُسے مضبوط رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
کیونکہ وہ “مرد” ہے اور مرد تو روتے نہیں، ٹوٹتے نہیں، کمزور نہیں پڑتےہے نا؟
لیکن مرد ایسے نہیں ہوتے۔
ہر مرد ظالم نہیں ہوتا۔
ہر خاموشی سنگدلی نہیں ہوتی۔
ہر مرد عورت کو کمتر نہیں سمجھتا۔
اور ہر رشتہ مرد کی وجہ سے خراب نہیں ہوتا۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ:
وہ بیٹا جو ماں کے لیے اپنی خواہشیں قربان کرتا ہےوہ بھی مرد ہوتا ہے
وہ بھائی جو خود پرانی چیزیں رکھ کر بہن کو نیا دیتا ہےوہ بھی مرد ہوتا ہے
وہ شوہر جو دن رات محنت کر کے بچوں کو خوش دیکھنا چاہتا ہے وہ بھی مرد ہوتا ہے
وہ باپ جو خاموشی سے سب کچھ سہتا ہے وہ بھی مرد ہوتا ہے
مرد مکمل نہیں ہوتے، وہ بھی انسان ہیں۔
ان میں بھی خوف ہوتا ہے، تھکن ہوتی ہے، جذبے ہوتے ہیں، آنکھیں نم ہوتی ہیں ۔بس وہ ظاہر نہیں کرتے۔
مرد صرف مرد نہیں، رشتوں کی بنیاد ہے
بھائی — محافظ محبت اور رازدار
بھائی صرف ایک رشتہ نہیں،وہ در تحفظ ،وہ باپ کے بعد سہارا، اور دوستوں کے بعد رازدار ہوتا ہے۔
جب وہ بہنوں کے ساتھ نکلتا ہے تو تفریح نہیں، عزت کی پاسبانی اُس کے ذہن پر سوار ہوتی ہے۔
لب خاموش رہیں تو بھی آنکھیں کہہ دیتی ہیں: “فکر نہ کرو، میں ساتھ ہوں!
اسی لیے بھائی کی موجودگی میں بہن دلیر، ماں پُرسکون اور گھر مطمئن دکھائی دیتا ہے۔
قدر کیجیے اُس چھتری کی جو خاموش رہ کر بھی آپ کو بارش سے بچاتی ہے۔
بیٹا — ایک خواب،سہارا
بیٹا محض کفیل نہیں، والدین کی آنکھوں میں ٹمٹماتا وہ چراغ ہے جو آنے والے کل کو روشن رکھتا ہے۔
اُس کے خوابوں کو سنا جائے تو ایک نئی صبح جنم لیتی ہے؛ انہیں دبایا جائے تو شامِ مایوسی اُتر آتی ہے۔
اعتبار دیجیے، رہنمائی کیجیے، موازنہ نہ کیجیے۔
شاید یہی بیٹا کسی دن اپنی اُڑان سے آپ کے سب اندیشے مٹا دے۔
باپ۔جنت کا دروازہ
باپ وہ شجر ہے جو دھوپ اپنے حصے میں رکھتا ہے اور سائے آپ کو بانٹتا ہے۔
ہم اکثر اُس سے ضرورت کے وقت بات کرتے ہیں؛
کبھی یونہی پوچھ لیجیے: “ابا! آپ کیسے ہیں؟”
فضول خواہشات کم کر کے، اُس کی مزدوری کو ہلکا کیجیے—
کیونکہ جو دروازہ باپ سے کھلتا ہے، وہی جنت تک لے جاتا ہے۔
شوہر — مجازی خداـسائبانْ
دن کی دھوپ، بازار کا شور اور ذمہ داریوں کی گرد اوڑھ کر وہ جب گھر لوٹتا ہے تو سکون کا متلاشی ہوتا ہے۔
اُس کی غیر لفظی محبت، ٹوٹی پھوٹی مسکراہٹ اور خاموش جدوجہد
سب گواہی دیتے ہیں کہ “میرا جینا تمھارے لیے ہے”۔
الفاظ سے بڑھ کر خیال رکھیے، شکایت سے پہلے شکریہ کہیے،
کیونکہ وہ صرف شریکِ زندگی نہیں آپ کے مان کا محافظ بھی ہے۔
مرد—چاہے بھائی ہو، بیٹا ہو، شوہر یا باپ صرف طاقت کا نام نہیں؛
وہ احساس، قربانی اور محبت کی چلتی تصویر ہے۔
شکایات کی فہرست چھوٹی اور شکریے کے جملے بڑے کریں؛
تاکہ یہ سبز سایہ ہمارے کل کو بھی ٹھنڈا رکھے اور ہمارے دل کو بھی۔
اسے اتنا نہ جھکا دیں کہ وہ خاموش ہو کر جیتا رہے۔
مرد… چاہے وہ بھائی ہو، بیٹا ہو یا باپ
محض طاقت یا خاموشی کا مجسمہ نہیں ہوتا۔
وہ احساس، قربانی، تحفظ، اور محبت کی مکمل تصویر ہوتا ہے۔
ہمیں ان رشتوں کو صرف ذمہ داری کے نام پر نہیں پرکھنا،
بلکہ ان میں چھپے جذبوں کو محسوس کرنا ہے
دعا
خدایا! ہمارے گھروں کے ہر مرد کو سلامت رکھ،
اُن کی قربانی کو ہماری مسکراہٹوں کا صلہ بنا،
اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اُن کی قدر زندگی ہی میں کر سکیں۔