تحریر ۔ پرھ اعجاز
یہ وہ عورت تھی، جس نے جیتے جی بھی خودداری کے ساتھ جینے کا حق مانگا، اور مرتے وقت بھی اپنی عزت پرسمجھوتہ نہ کیا۔
“صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے آپ کو، باقی میرے جسم کو ہاتھ مت لگانا۔”
یہ اُس بہادر لڑکی کے الفاظ تھے — اُس کے آخری الفاظ۔ جو ایک دردناک چیخ ہے، ایک احتجاج ہے، اور ظالموں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ۔
آج کا یہ دلخراش واقعہ اسی جہالت اور سنگدلی کی ایک بھیانک مثال ہے، جہاں دو محبت کرنے والوں کو گولیاں مار کر بےدردی سے قتل کر دیا گیا۔ دونوں نے اپنی مرضی سے نکاح کیا تھا، جو قبیلے اور خاندان کے لوگوں سے برداشت نہ ہوا۔
فسوس اس بات کا ہے کہ محبت، جو دین میں بھی ایک پاکیزہ رشتہ بننے کا ذریعہ ہے، اُسے ہمارے معاشرے میں آج بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔ اور اس “جرم” کی سزا اکثر عورت اور مرد دونوں کو اپنی جان دے کر چکانی پڑتی ہے۔
بلوچستان کی سرزمین، جہاں مہمان نوازی، وفاداری اور غیرت کو ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے، آج اسی غیرت کے نام پر دو جوان جانوں کو بے رحمی سے ختم کر دیا گیا۔
یہ وہی زمین ہے جہاں عزت کو سب سے قیمتی سمجھا جاتا ہے، مگر افسوس کہ یہاں عورت کی مرضی، اُس کی عزت کا نہیں، اُس کی موت کا فیصلہ بن جاتی ہے۔
اسلام اور پاکستان کا آئین دونوں عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کا پورا حق دیتے ہیں۔ جب دین خود یہ اختیار دیتا ہے، تو قبیلہ یا خاندان کیسے اس پر موت کا فتویٰ صادر کر سکتا ہے؟
مگر بلوچستان جیسے روایتی معاشروں میں قبائلی غیرت کو شریعت پر ترجیح دی جاتی ہے — اور یہی وہ المیہ ہے جو اس واقعے میں نظر آیا۔
بلوچ معاشرہ، جو بظاہر غیرت کا علمبردار ہے، اُس کی غیرت اُس وقت کیوں جاگتی ہے جب ایک لڑکی اپنی پسند سے نکاح کرے؟
مگر وہی غیرت اُس وقت کیوں خاموش رہتی ہے جب زمینوں، دشمنیوں یا جھگڑوں میں عورتوں کو ونی یا سوارہ کر دیا جاتا ہے؟
یہ کیسی غیرت ہے جو بہن کے نکاح پر گولی چلاتی ہے، مگر اسی بہن کو زر یا انتقام کے بدلے قربانی بنانے پر فخر کرتی ہے؟
آج کا واقعہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ یہ غیرت نہیں — یہ صرف مردانہ انا، طاقت کا تکبر، اور عورت کو ملکیت سمجھنے کی سوچ ہے۔
بلوچستان کے اس واقعے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے:کیا ہم قبائلی رسموں کو دین پر ہمیشہ کے لیے حاوی رکھیں گے؟
کیا قرآن پاک ہاتھ میں تھامے کھڑی لڑکی کی جان بھی ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں؟
وہ نہ صرف اپنی زندگی، بلکہ شریعت کے حق کو بھی اپنے خون سے سچ کر گئی۔
یہ قتل صرف ایک لڑکی کا نہیں، بلکہ اُس دین، اُس انصاف، اور اُس انسانیت کا قتل ہے جو اس معاشرے میں روز دفن ہو رہی ہے۔
آج صرف ایک عورت نہیں، انسانیت کا قتل ہوا ہے۔
یہ وہ عورت تھی جس کا “جرم” صرف اتنا تھا کہ اس نے محبت کی، خواب دیکھے، اور اپنی زندگی کو ایک نئی راہ پر ڈالنے کی کوشش کی۔
اس کا قصور یہ تھا کہ اُس نے ایک جائز رشتہ — نکاح — کو اپنایا، اور اپنے خاندان و قبیلے کی مرضی کے خلاف جا کر فیصلہ کیا، لیکن وہ کسی غلط راہ پر نہیں تھی۔
سب سے کربناک لمحہ یہ تھا کہ جب اُسے قتل کیا گیا، اُس کے ہاتھ میں قرآن پاک تھا۔
یہ کیسا جاہلانہ نظام ہے، جہاں ایک بھائی اپنی ہی بہن کو گولی مار دیتا ہے — نہ اُس میں انسانیت باقی رہتی ہے، نہ خدا کا خوف۔
یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی غیرت کے نام پر اس طرح کی درندگی کو جواز دیا جاتا ہے۔
افسوس کہ مرد کی غیرت صرف اُس وقت جاگتی ہے جب عورت اپنی مرضی سے جینا چاہے، مگر یہی غیرت اُس وقت کہاں سو جاتی ہے جب یہ نام نہاد غیرت مند اپنی ہی بہنوں
اور بیٹیوں کو زمین یا دشمنی کے بدلے بیچ دیتے ہیں؟
یہ واقعہ ایک سوال چھوڑ گیا ہے — کیا شریعت کے مطابق نکاح کرنا اب جرم بن گیا ہے؟
اگر نہیں، تو پھر ایک بھائی نے اپنی بہن کو صرف اس لیے کیوں قتل کیا کہ اُس نے اپنا جائز حق استعمال کیا؟
اس لڑکی کی خاموش لاش، اُس کا بہتا ہوا خون، اور اُس کے آخری الفاظ — یہ سب ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اس بہادر لڑکی کی آخری چیخ کو اپنی آواز بنائیں، اور اس ظلم کے خلاف ایک ایسا معاشرہ تعمیر کریں جہاں محبت جرم نہ ہو،
اور عورت صرف عزت کی نہیں، زندگی کی بھی حقدار ہو۔