تحریر: صائمہ راشد
ماں ایک ایسا لفظ ہے جس میں ساری دنیا سمٹ جاتی ہے۔ یہ لفظ سنتے ہی دل کو سکون ملتا ہے۔ دنیا کا سب سے خوبصورت، مخلص اور سچا رشتہ — ماں۔
ماں ایک خوبصورت احساس ہے، جو محبت، قربانی اور دعاؤں سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ جو اپنے اندر ایک نئی جان کو پلتا ہوا محسوس کرتی ہے، اور پھر اپنی نیند، بھوک، پیاس، حتیٰ کہ اپنا وجود بھی اس کے لیے وقف کر دیتی ہے۔ وہ بچہ اس کی زندگی کا مرکز بن جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ، جب وہی اولاد جوان ہو کر اپنے قدموں پر چلنے لگتی ہے، تو ماں کی باتیں روک ٹوک لگتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ سمجھتی نہیں۔ مگر وہ تو تب بھی سمجھتی تھی جب زبان نہ تھی، صرف اشارے ہوتے تھے۔ اور وہی اشارے وہ بے زبان محبت سے پڑھ لیتی تھی، کیونکہ اُسے سب سمجھنا ہوتا ہے۔
عورت، جب ماں بنتی ہے، تو اپنی خوشیاں، اپنے خواب، اپنی مرضی، حتیٰ کہ اپنا مستقبل بھی اولاد کی خاطر قربان کر دیتی ہے۔ کوئی الجھن ہو، کوئی بیماری ہو، دل کی بات ہو — سب سے پہلے اسی کے پاس جایا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا جاتا ہے، کیونکہ وہ تو غلط ہو ہی نہیں سکتی۔
مگر اس سب کے بیچ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک انسان بھی ہے۔ وہ فرشتہ نہیں — جو غلطی کر سکتی ہے، تھک سکتی ہے، رو سکتی ہے۔ اس کے بھی کچھ خواب ہوتے ہیں، جو اس نے اپنی ذات کی بجائے اپنی اولاد کی خاطر دل میں دبا لیے۔
آج کے دن، یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے کبھی اس کی خوشیوں، اس کی خواہشات، اس کی پسند ناپسند پر غور کیا؟ کیا ہم نے کبھی اس کے اندر چھپے انسان کو سمجھنے کی کوشش کی؟
اور پھر وہ بات… جو ہمارے معاشرے میں آج بھی ایک “ٹابو” ہے۔ جب کسی مرد کی بیوی وفات پا جاتی ہے، تو اس کی دوسری شادی کی بات با آسانی ہو جاتی ہے، معاشرہ اسے قبول بھی کر لیتا ہے اور اولاد بھی اکثر اس کا ساتھ دیتی ہے۔
لیکن جب کوئی عورت بیوہ ہو جائے، تو کیا وہی اولاد یا معاشرہ اس کے لیے بھی اسی فراخ دلی سے سوچتا ہے؟ کیا اسے بھی ایک ساتھی کی ضرورت محسوس کرنے کا حق نہیں؟ کیا اسے بھی نئی زندگی شروع کرنے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے؟
عمر کچھ بھی ہو، ایک ہمسفر کی ضرورت ہر انسان کو ہوتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف شرعی طور پر جائز ہے، بلکہ اخلاقی اور انسانی طور پر بھی قابلِ فہم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سوچ کے دروازے کھولیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ ہماری ماں ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ بھی ایک مکمل انسان ہے — جسے خوشی، محبت، عزت اور نیا آغاز کرنے کا برابر کا حق حاصل ہے۔
یہ رشتہ اللّٰہ کی طرف سے ہے — تا قیامت۔ ماؤں کا خیال رکھیں، ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا احترام کریں۔
کیونکہ وہ صرف ماں نہیں، وہ ایک مکمل انسان بھی ہیں — جو جینا چاہتی ہیں، محسوس کرنا چاہتی ہیں، اور اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتی ہیں۔
No Comments
[…] وہ عورت تھی جس کا “جرم” صرف اتنا تھا کہ اس نے محبت کی، […]
[…] لگتا ھے یہ شعر ماوں کے لئے ہے۔ میں نے اہنی زندگی میں ایسی اولادیں بھی دیکھی […]